Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

166      ”عائزہ میں چاہتا ہوں دادی جان بھی اسلام آباد چلیں ہمارے ساتھ ،میں نے کئی بار ان سے گزارش کی ہے اور وہ ہر بار ہی کوئی نہ کوئی عذر پیش کرکے معذرت کر چکی ہیں ،میں چاہتا ہوں تم ان کو راضی کرو۔“ برش کرتی عائزہ نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا وہ بڑی امید بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”دادی جان کو اگر ہمارے ساتھ جانا ہوتا تو وہ آپ کو انکار نہیں کرتیں ،دراصل دادی کو گھر سے دور رہنے کی عادت ہی نہیں ہے اس معاملے میں وہ میری بات بھی نہیں مانیں گی۔
“ وہ ڈریسنگ ٹیبل پر برش رکھ کر بیڈ پر اس کے قریب ہی آکر بیٹھ گئی۔
”ہوں… میں پری سے کہتا ہوں وہ دادی کو منائے۔“ وہ کروٹ بدل کر اس کے قریب ہوا۔
”ارے… لیکن اس طرح کیوں کر رہے ہیں آپ؟ کوئی پرابلم ہے ،دادی کو لے جانے کی وجہ کیا ہے کسی کا پریشر ہے آپ پر؟“ اس کے اصرار پر وہ متذبذب ہو کر گویا ہوئی۔


”ایسی کوئی بات نہیں ہے ڈیئر!“ اس نے محبت سے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
”میں نے مما اور ڈیڈی کے جانے کے بعد ان کی کمی تو محسوس کی ہی ہے مگر ایک بہت بڑا ادراک یہ بھی ہوا کہ بڑوں کا وجود چھوٹوں کیلئے کتنا اہم ہوتا ہے ،ان کا وجود گھنی چھاؤں کی طرح ہم پر سایہ کرکے گرم دھوپ سے ہمیں بچاتے ہیں ،ہمارے درمیان جو بھی فاصلے آئے رنجشیں پیدا ہوئیں ان سب کا سبب یہی بڑوں کا ہمارے ساتھ نہ ہونا تھا۔“
”بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ ،پہلے دادی کو اہمیت و مرتبہ نہ دے کر ہم بھی گمراہیوں کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے ،کتنے بدقسمت ہوتے ہیں ایسے لوگ جو ایسے بزرگوں کی عزت نہیں کرتے ہیں اور بڑی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں۔
###
رات میں حسب عادت فیاض صاحب مطالعہ سے فارغ ہو کر بیڈ روم میں آئے تو صباحت کو اپنا منتظر پایا ،وہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھی تھیں ،چہرے پر ایک انوکھی چمک تھی جب سے ان کے مزاج سے خودسری و منافقت دور ہوئی تھی تب سے ان کی سادگی و خلوص میں بھی نکھار و خوبصورتی پیدا ہو گئی تھی وہ پسندیدہ نگاہوں سے انہیں دیکھ رہے تھے، صباحت نے ان کی طرف دیکھا اور جھینپ کر نگاہیں جھکا لی تھیں۔
”کیا ہوا… ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟“ ان کی آواز دھیمی تھی۔
”دیکھ رہا ہوں ،عجز و انکساری ،سادگی و مروت شخصیت کو کس طرح سے اجاگر کر دیتے ہیں۔ تم جو کل تک شوخ ملبوسات ،مہنگی جیولری اور ڈیروں میک اپ میں بھی اس طرح نمایاں نہیں ہوتی تھیں جس طرح آج یہ سادہ چہرے اور نماز کی شال میں تمہارا حسن لشکارے مار رہا ہے اور میری نگاہیں خیرہ کر رہا ہے۔
“ آج ان کی نگاہوں میں ویسی ہی محبت تھی جس کی وہ اول شب سے متلاشی رہی تھیں ،کیا کچھ جتن نہ کئے تھے ان کے دل میں جگہ بنانے کیلئے زندگی کا زیادہ حصہ شاپنگ سنٹرز اور پارلرز میں گزارا تھا اور محض چند دنوں کی سادگی اور پرخلوص زندگی نے اس دیرینہ آرزو کو پوراکر دیا تھا جس کی وہ مدت سے خواہش مند تھیں۔
”یہ افسوس رہے گا مجھے تاحیات فیاض! میں آپ کی خواہشوں پر پورا نہ اتر سکی ،ایک عرصہ آپ کی اور اپنی زندگی اجیرن کرکے رکھی۔
”جو ہوا سو ہوا ،کیوں ہم کل کے غم میں اپنا آج برباد کریں۔“ محبت بھرے لہجے میں ان کے شانے پر ہاتھ رکھے وہ کہہ رہے تھے۔
”اگلے مہینے فراز بھائی اور بھابی آ جائیں گے ،انہوں نے کہہ دیا ہے وہ آتے ہی پری اور طغرل کی شادی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہاں میں عابدی کو بھی کہہ دوں گا وہ عادلہ کو رخصت کروا کر لے جائیں پھر ہم ابرو کو اماں کے حوالے کرکے ورلڈ ٹور پر چلیں گے۔
”ابرو کے ایگزامز ہو جائیں تو ہم اسے بھی کراچی ہی مستقل بلوا لیں گے۔ میں چاہتی ہوں وہ اماں کے پاس زیادہ وقت گزارے اور اماں اس کی بھی ایسی ہی تربیت کریں جس طرح انہو نے پری کی تربیت کی ہے اور اسے سچ مچ پارس بنا دیا ہے۔“
”اماں کی تربیت تو بلاشبہ بہترین ہے صباحت! لیکن اس میں زیادہ عمل و دخل پری کی طبیعت کا بھی ہے ،وہ اگر حساس و نیک فطرت نہ ہوتی تو آج بہت بری لڑکی ہوتی کیونکہ جس لڑکی کا باپ اسے کوئی اہمیت نہ دیتا ہو جس کی ماں دوسرا گھر بسا کر بیٹھ گئی ہو اور جس کی زندگی دو بھر کرنے کیلئے سوتیلی ماں ،بہنیں موجود ہوں ایسی دھتکاری ہوئی نفرتوں کا شکار لڑکی کیلئے صرف دادی کی توجہ و پیار کافی نہیں ہوتا ہے۔
“ صباحت کی نگاہوں میں نمی ابھرنے لگی۔
”میں تمہیں کوئی الزام نہیں دے رہا صباحت! میں اس قابل بھی نہیں ہوں جب باپ کا رویہ سوتیلوں سے بدتر ہو تو کسی کو بھی کچھ کہنے کا حق نہیں بنتا۔ میرا حوصلہ نہیں ہوتا ہے پری سے مسکرا کر بات کرنے کا ،اسے بیٹی کہہ کر سینے سے لگانے کیلئے ترس رہا ہوں میں۔“
”فکر مت کریں ،ہم اپنی غلطیوں کا ازالہ کر دیں گے۔
###
دادی جان ہلکے آسمانی کلر کے سوٹ میں ملبوس گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے گہری سوچوں میں محو تھیں ،پری ان کی الماری میں پریس کئے ہوئے کپڑے ہینگ کر رہی تھی اور دادی کی خاموشی بھری محویت کو بھی دیکھ رہی تھی۔
”دادی جان! کیا سوچ رہی ہیں اتنی دیر سے؟“ وہ ان کے قریب آکر بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی تو وہ چونک کر بولی۔
”سمجھ نہیں آتی فاخر اور عائزہ بے حد اصرار کر رہے ہیں ساتھ لے جانے کیلئے اب میں جاؤں یا نہیں؟ صباحت ،عائزہ اور فاخر کے درمیان ہونے والی ساری چپقلش و ناراضی کا مجھے بتا چکی ہے ،سن کر دل کو بہت ہی دکھ پہنچا تھا کہ عائزہ کن راستوں پر چل نکلی تھی ،صد شکر پروردگار نے ہماری لاج رکھی ،عائزہ کی عصمت محفوظ رہی۔
“ دادی کی آواز دھیمی ہوئے رندھ گئی تھی۔
”وہ وقت گزر گیا دادی جان! آپ کی دعاؤں کے طفیل ہی اللہ نے ہمیں ایسے حالات سے دور رکھا ہے جو ہمارے لئے عزت کا باعث بنتے اب آپ وہ سب سوچ کر خود کو ہلکان مت کریں۔“ وہ ان کے قریب بیٹھ کر بولی۔
”جب سے صباحت نے مجھے وہ سب بتایا ہے میرا دل وحشتوں کا شکار ہو گیا ہے ،سمجھ نہیں آتی آج کل کی بچیاں اس بے حیائی و بے راہ روی کے راستے پر کیوں چلنے لگی ہیں؟ ارے ہمارے زمانہ میں لڑکیوں کے واسطے بڑا سخت ماحول ہوتا تھا ،بیٹیاں ،بہنیں ،باپ بھائیوں کے سامنے بے حجابی سے نہیں گھوما کرتی تھیں۔
شرم و حیا تھی ،باوقار رکھ رکھاؤ تھا اور اب تو مانو وہ چلن ہی ختم ہو گیا۔ عائزہ کو اللہ نے ہدایت دی وہ راہ راست پر آ گئی مگر…“ وہ گہرا سانس لے کر آنکھوں میں در آنے والی نمی صاف کرنے لگیں۔
”مگر دادی جان…“
”عادلہ کو دیکھ رہی ہو تم وہ موم کی مانند پگھلتی جا رہی ہے ،مجھے محسوس ہوتا ہے ،عادلہ بھی کسی غلط راہ پر چل پڑی ہے۔ اب میرے بچوں اور دوسروں کے بچوں میں کردار کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔
”ایسا کچھ نہیں ہے دادی جان! آپ اپنے دل کو صاف رکھیں اور بے فکر رہیں ،عائزہ سے جو غلطی ہوئی وہ اب کسی اور سے نہیں ہو سکتی۔“ اس نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے پریقین لہجے میں کہا۔
”ہوں… میں نے بھی ایک فیصلہ کر لیا ہے ،ایک ماہ بعد فراز تمہاری شادی کرنے کا کہہ رہا ہے ،فیاض کو بھی اس نے راضی کر لیا ہے میں فیاض سے آج ہی بات کروں گی کہ وہ ساتھ ہی عادلہ کے فرض سے بھی فارغ ہو۔
“ وہ ان کی بات کی تائید نہ کر سکی ،چہرے پر سرخی چھا گئی تھی۔
”جاکر اپنے بھائی سے مل کر آؤ پھر نورجہاں اور عابدی سے بات کروں گی ،وہ ویسے بھی بار بار فون کرکے کھانے پر بلا رہی ہیں اور چند دنوں کیلئے عائزہ کے ساتھ بھی چلی جاؤں گی۔“
###
رات کی سیاہی ہر شے کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھی ،لوگ بے خبر اپنے بستروں میں محو خواب تھے ،ایک وہ تھی بھٹکی روح کی طرح مضطرب کمرے میں چکر لگا رہی تھی۔
اس کی سفید رنگت پر زردی غالب تھی ،چہرہ بے رونق اور ہر دم آنکھوں میں ایک خوف نمی بن کر تیرتا تھا ،شیری کی محبت ،ایک عبرت ،ایک کرب و اذیت ثابت ہوئی تھی ،جو کسی آکٹوپس کی مانند اسے جکڑے ہوئے تھے۔ روز وہ کال کرتا تھا اور یہی دھمکی ہوتی تھی اگر وہ پری کو لے کر نہ آئی تو وہ اس سے بہت بھیانک انتقام لے گا اور وہ جانتی تھی وہ کم ظرف اپنی دھمکی کو سچ کر دکھانے میں دیر نہ لگائے گا۔
نامعلوم کب اس نے اس کی قابل اعتراض تصاویر و ویڈیو بنا ڈالی تھیں وہ ہی اب اس کے گلے کی رسی ثابت ہو رہی تھی۔
اے سی کی کولنگ میں اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا تو وہ بدحواس سی کمرے سے نکل آئی اور لاؤنج میں صوفے پر بیٹھ گئی ،خاصی دیر تک آنکھیں بند کرکے بیٹھنے کے باوجود اس کی وحشتوں کو کوئی قرار نہیں ملا تو وہ چند لمحوں کا بہکنا اسے برباد کر دیاگیا تھا۔
نام و مقام سب کچھ پست ہو چکا تھا آج نیم اندھیرے میں خوف و پچھتاوے کے آنسو بہا رہی تھی کہ کسی کو اپنے دل کی بربادی دکھا نہیں سکتی تھی۔
”عادلہ… کیوں رو رہی ہو اس طرح یہاں بیٹھ کر؟“ بے حد قریب سے ابھرنے والی طغرل کی آواز سن کر وہ رونا بھول کر ہک دک رہ گئی تھی۔
اس نے سوئچ آج کیا تو کمرہ روشنی سے بھر گیا اور اس کا آنسو بھرا چہرہ چھپا نہیں رہ سکا۔
طغرل اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا پریشان لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
”کیا درد ہو رہا ہے تمہیں؟“ اس کا انداز بہت مشفقانہ تھا اور عادلہ کو اس کے سوال میں ہی جواب مل گیا تھا وہ دوپٹے سے چہرہ صاف کرتی ہوئی گویا ہوئی۔
”جی… ٹانگ میں بے حد درد ہو رہا ہے۔“ وہ خشک ہونٹوں پرزبان پھیرتی بولی۔ اس کی ہچکچاہٹ و نروس انداز طغرل کو مشکوک سا کر گئے تھے۔
”سچ سچ بتاؤ عادلہ! تم کیوں اس طرح چھپ کر یہاں رو رہی تھیں؟ کیا فکر ہے کیا دکھ ہے جو بھی ہے سب کہہ دو۔ گھبراؤ نہیں بھائی کے ہوتے ہوئے بہنوں کو پریشان نہیں ہونا چاہئے۔“ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے پورے خلوص سے کہا۔
”آپ پری کو لے کر یہاں سے دور چلے جائیں۔ اتنی دور کہ اس شیطان شخص کی پرچھائی بھی پری پر پڑ نہ سکے۔“
”کیا کہہ رہی ہو عادلہ! کیوں کہہ رہی ہو اس طرح کہ پری کو کہیں دور لے جاؤں کیا ہوا ہے؟“ وہ اس کے دھیمے لہجے میں کہی گئی بات ادھوری سن سکا تھا۔
”میں نے خواب دیکھا ہے بہت بھیانک خواب؟“ اس نے سنبھل کر بولنا شروع کیا۔
”خواب تو خواب ہوتا ہے تم کیوں اس قدر پریشان ہو رہی ہو ،کچھ نہیں ہوگا تم خواب کو بھولنے کی کوشش کرو تو بہتر ہے۔“
”نہیں طغرل بھائی! میرا دل بہت ڈر رہا ہے کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا ،آپ کسی طرح بھی پری کو یہاں سے لے جائیں۔“ اس نے بے ساختہ رونا شروع کر دیا تھا۔
”اصل بات ہے کیا یہ کلیئر کر دو؟ خواب کے چکر میں آنے والا نہیں میں اور اللہ نے چاہا تو ایسا کچھ نہیں ہوگا ،تم پریشان مت ہو۔“
”آپ میری بات سمجھ ہی نہیں رہے پلیز آپ پری کو لے کر کہیں چلے جائیں۔“
”عادلہ کیسی اسپوپڈ باتیں کر رہی ہو ،اس کو شادی کے بندھن میں باندھے بنا کہاں لے جا سکتا ہوں؟“ وہ متعجب لہجے میں بولا۔
”تو کر لیں نا شادی ،میں میں بھی یہی تو چاہتی ہوں۔
“ وہ برجستہ گویا ہوئی۔
”ڈیڈ اور ممی اگلے مہینے آ رہے ہیں تب ہی شادی ہو گی ،ان کی غیر موجودگی میں میں پرسنلی کوئی خوشی سیلیبریٹ نہیں کر سکتا۔“
”خواہ جب تک کوئی خوشی سیلیبریٹ کرنے کیلئے باقی نہ بچے؟“
”اپنا منہ بند رکھو عادلہ! کیا ہو گیا ہے تمہیں؟“ اس کی بات اسے سخت ناگوار گزری تھی وہ غصے سے گویا ہوا۔
”سوری طغرل بھائی! دماغ خراب ہو گیا ہے میرا ،ایم سوری۔
“ وہ کہہ کر برق رفتاری سے وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
طغرل ہونٹ بھینچے اسے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا تھا۔
”کچھ گڑبڑ ہے یقینا عادلہ مجھ سے کوئی بات چھپا رہی ہے ،لیکن ایسا کیا ہے وہ کیا چھپا رہی ہے؟ پھر پارس کو یہاں سے بہت دور لے جانے پر اصرار کرنا ،کوئی خوف ہے جس کو وہ خواب کا نام دے رہی ہے۔“ عادلہ کی مبہم سی گفتگو نے اس کے اندر کے تجسس و افکار کو بیدار کر ڈالا تھا۔ وہ کچھ نہ بتاتے ہوئے بھی ادھورا سا بہت کچھ بتا گئی تھی اور پارس کے نام پر اس کے اندر عجیب سی بے چینی پھیل چکی تھی۔

   1
0 Comments